29-Oct-2022-وحشتوں پر ڈالا حصار
مصنفہ: مرحاشہباز
الفاظ کی تعداد: 600
عنوان: وحشتوں پر ڈالا حصار
”کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ کا بچہ باغی کیوں ہوا؟ اس پر آپ کی باتیں اثرانداز کیوں نہیں ہوتیں؟ بیشتر والدین کا شکوہ ہے کہ میرا بچہ مجھے وقت نہیں دیتا۔ دن بھر میں آپ کتنا وقت اپنے بچے کے لیے نکالتے ہیں۔ اب والدین کا کہنا ہو گا کہ جن کاموں میں ہم سارا دن الجھے رہتے ہیں، وہ بھی بچوں ہی کے لیے کرتے ہیں تو یاد رکھیے بچے کو کام والی باٸی یا کفالت کرنے والے شخص سے زیادہ اس کا خیال رکھنے، اسے سننے، مشورہ دینے، لمحہ لمحہ ساتھ نہ ہوتے ہوۓ بھی اپنے ساتھ کا احساس دلانے والے والدین چاہییں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بچے کو گھر سے مناسب توجہ نہیں ملتی جو اس کی ضرورت ہے، تو وہ مجبوراً باہر کا سہارا لیتا ہے۔ ایسا سہارا جو بھلا ہو یا برا، مگر اس کے ساتھ رہے، اسے سن سکے، کچھ کہہ سکے۔
عموماً یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین چونکہ روایتی ہوتے ہیں تو وہ دورِ حاضر کے بچوں پر روایتی طریقوں ہی کا استعمال کرتے ہیں۔ بچے بے چارے ساری حیات بھی لگا دیں تب بھی والدین کے قدامت پرست نظریات کا علاج نہیں ڈھونڈ پاتے۔
پھر یہ کہ آج کل کمرتوڑ مہنگاٸی کے دور میں والدین کو پیٹ بھرنے کے لالے پڑے ہیں۔ مرد اپنے بیوی بچوں کی خاطر کماتے کماتے انھی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔۔“ کان کے پردوں تک اِیکو ہو کر جاتی ماٸک کی آواز کسی نے کم نہ کی تھی مگر وہ پھر بھی مدھم پڑ گٸ اور جیا کو اپنی آواز سناٸی دینا بند ہو گٸ۔ ذہن ابر آلود ہونے لگا اور اُس پر کٸ مناظر گڈ مڈ ہونے لگے۔ پھر ایک منظر باقی سب مناظر پر حاوی ہو گیا۔
”میں دن بھر سرد و گرم کا احساس کیے بغیر کماتا ہوں پھر بھی گھر آ کر یہی سننا پڑتا ہے کہ یہ نہیں، وہ نہیں۔ اب یہ سب کہاں سے پورا کروں؟“ زاہد کو اپنے پسندیدہ کھانے کی فرماٸش پر معمول کا راشن نہ ہونے کا فقرہ سننے کو ملا تو پھٹ پڑا۔ ”اِس میں میری کیا غلطی ہے۔ 20000 کی معمولی رقم میں جب تک بِل، فیسیں اور کراۓ ادا کروں تب تک آٹے کے پیسے نہیں بچتے۔ اب آپ بتاٸیں کیا میں جسم فروشی کروں تاکہ پیسے مل جاٸیں۔“ نازیہ بھی ذمہ داریوں کو بوجھ سمجھنے اور غربت کے باعث چڑچڑی رہتی تھی سو خوب برسی۔ ”تم رہنے دو میں اپنی بولی لگا آتا ہوں۔“ دونوں طیش کے عالَم میں ایک دوسرے پر چِلاتے ہوۓ الفاظ کے طمانچے برابر رسید کر رہے تھے۔ مگر دونوں ہی انجان تھے کہ جس راہداری میں کھڑے وہ جھگڑ رہے ہیں، اُسی راہداری سے گزر کر آنے والے ڈراٸنگ روم میں ان کی بیٹی اپنی گڑیا کو تھامے یہ سب پہلی بار دیکھ رہی تھی۔
دھندلکے چھٹے تو کانفرنس ہال میں کھڑی جیا کی آنکھیں چھلک چکی تھیں۔ ”ہمارے بچے ہمارا مستقبل“ کے موضوع پر بولنے کے لیے چاٸلڈ ساٸیکالوجسٹ ڈاکٹر جویریہ کو بلایا گیا تھا۔
”مجھے نہیں یاد کبھی ماں کو مجھے اٹھانا پڑا ہو بلکہ میں ہر شب ماں کے لفظوں کے اور باپ کے ہاتھ کے لگاۓ طمانچوں کی گونج سے اٹھتی تھی۔ میں نے اپنی ہر بچگانہ خواہش کا گلا تب گھونٹا جب ماں کا گلا باپ کے ہاتھوں گھٹتے دیکھا تھا۔ لیکن جیسے ستارے اندھیرے کو رونق بخشتے ہیں ہیں بالکل اسی طرح اس تاریکی کے دور نے مجھے روشنی عطا کی تاکہ میں اپنے جیسوں کا حوصلہ بن کر ان کے والدین کی سوچ کا زاویہ بدلوں۔۔“ اتنا کہہ کر وہ سٹیج سے اترتی چلی گٸ۔ تالیوں کی گونج سے بھرا ہال اپنے اندر موجود نفوس سمیت اسے رشک سے دیکھ رہا تھا۔
Nagma khan
01-Nov-2022 08:07 PM
Very interested
Reply
Simran Bhagat
31-Oct-2022 08:57 PM
Bahut khoob ❤️
Reply
Anuradha
31-Oct-2022 06:43 AM
بہت عمدہ
Reply